نکاح کے متعلق سوالات
- Admin
- Dec 22, 2021
مسجد میں عقدِ نکاح کرنا مستحب ہے، مگر اِس میں یہ خیال لازمی رکھا جائے کہ مسجد شوروغل اور ہر ایسے قول وعمل سے محفوظ رہے کہ جو احترامِ مسجد کے خلاف ہو، مثلاً: ناسمجھ بچےہمراہ نہ لائے جائیں کہ اُچھل کود کریں گے۔ یونہی مشاہدہ ہے کہ مسجد میں نکاح ہونے کے فوراً بعد سب کو مٹھائی کھلائی جاتی ہے، اِس سے بچا جائے کہ مٹھائی کا شِیرا یا اجزاء مسجد میں گرنے سے مسجد کے آلودہ ہونے کا قوی اِمکان ہے۔
مسجدمیں نکاح کرنے کے متعلق نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا:’’أعلنوا ھذا النكاح واجعلوه في المساجد۔‘‘ترجمہ:لوگو! نکاح کا اعلان کیا کرو اور مسجدوں میں نکاح کرو۔ (جامع الترمذی، جلد2،باب ما جاء فی اعلان النکاح، صفحہ384، مطبوعہ دار الغرب الاسلامی، بیروت)
مسجد میں نکاح کی ترغیب دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:’’وهولحصول بركة المكان وينبغي أن يراعى فيه أيضا فضيلة الزمان ليكون نورا على نور وسرورا على سرور، قال ابن الهمام: يستحب مباشرة عقد النكاح في المسجد لكونه عبادة وكونه في يوم الجمعة۔‘‘ترجمہ:مسجد میں عقدِ نکاح کی ترغیب، مسجد سے برکات کے حصول کے پیش نظر ہے۔ مناسب یہ ہے کہ مسجد کے ساتھ ساتھ ، وقت والی فضیلت کی بھی رعایت کی جائے، تاکہ عقدِ نکاح نور پر مزید نور ہوجائے اور خوشیاں دوبالا ہوجائیں۔ امام ابنِ ھمام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ مسجد میں عقدِ نکاح کا ہونا مستحب ہے، کہ نکاح ایک عبادت ہے۔(اور عبادت کےلیے مسجد ایک عمدہ جگہ ہے) دوسری چیز یہ کہ نکاح کا جمعہ کے دن ہونا بھی مستحب ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح، جلد6،کتاب النكاح، صفحہ285، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:’’ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة۔‘‘ترجمہ:نکاح کا اعلان کرنا، خطبہِ نکاح کا عقدِ نکاح سے پہلے ہونا اور نکاح کا جمعہ کے دن مسجد میں ہونا، یہ تمام اُمور مستحب ہیں۔
(درمختار مع ردالمحتار ، جلد4،کتاب النکاح، صفحہ75، مطبوعہ کوئٹہ)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’مسجد میں عقد نکاح کرنا مستحب ہے۔مگر یہ ضرور ہے کہ بوقت نکاح شورو غل اور ایسی باتیں جو احترام مسجد کے خلاف ہیں، نہ ہونے پائیں، لہٰذا اگر معلوم ہو کہ مسجد کے آداب کا لحاظ نہ رہے گا تو مسجد میں نکاح نہ پڑھوائیں۔‘‘(بھار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ498، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
اجمل العلماء مفتی محمد اجمل قادِری سَنبَھلی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1383ھ/1963ء) لکھتےہیں:’’مسجد میں نکاح کی مجلس منعقد کرنا مستحب ہے۔‘‘(فتاویٰ اجملیہ، جلد2، صفحہ 398، مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)
آدابِ مسجد بیان کرتے ہوئے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’جنبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم وشراءکم وبیعکم وخصوماتکم ورفع اصواتکم واقامۃ حدودکم وسل سیوفکم۔ ترجمہ: تم اپنی مسجدوں کو بچوں، پاگلوں، خریدوفروخت، جھگڑوں ، آوازوں کوبلند کرنے ، حد جاری کرنے اور تلواریں ننگی کرنے سے محفوظ رکھو۔ (سنن ابنِ ماجہ، ابواب المساجد والجماعات، باب مایکرہ فی المسجد، صفحہ54، مطبوعہ کراچی)
صفر کے مہینے میں نکاح کرنا بلاشبہ جائز ہے ۔بعض لوگ صفر کے مہینے میں اس اعتقاد کی بناپرشادی نہیں کرتے کہ اس مہینے میں بلائیں وغیرہ اترتی ہیں اور یہ منحوس مہینہ ہے۔یہ اعتقاد محض باطل ومردود ہے ، جس کی کوئی اصل نہیں ، بلکہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اسے منحوس سمجھتے تھے ، تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منحوس جاننے سے منع فرما دیا ۔جیساکہ مشکوٰۃ المصابیح میں ہے : ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاعدوی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولا صفر ‘‘ترجمہ:’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :عدویٰ نہیں یعنی مرض لگنا اور متعدی ہونا نہیں اور نہ بد فالی ہے اور نہ ہی اُلّو منحوس ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے۔‘‘
( مشکوٰۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح،ج8،ص394،مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے اسی طرح کاایک سوال پوچھاگیاکہ’’ماہ محرم الحرام وصفرالمظفرمیں نکاح کرنامنع ہے یانہیں‘‘توآپ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیتے ہوئے ارشادفرمایا’’نکاح کسی مہینے میں منع نہیں ۔ ‘‘
(فتاوی رضویہ ،ج11، ص265، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ، لاهور)
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ’’ماہ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں خصوصا ماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نجس مانی جاتی ہیں اور انکو تیرہ تیری کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہے حدیث میں فرمایا کہ صفر کوئی چیز نہیں یعنی لوگوں کا اسے منحوس سمجھنا غلط ہے ۔ ‘‘
(بهار شریعت ، ج3، ص659،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ یکم صفر سے ۱۳صفر تک اوریکم ربیع الاول سے ۱۲ربیع الاول تک شادی بیاہ کرنابلاشبہ جائز ہے شرعاکوئی حرج نہیں۔ ان تاریخوں میں شادی بیاہ کرنے کو منع کرنا جہالت ونادانی ہے۔‘‘
(فتاوی فیض الرسول، ج1، ص562،مطبوعہ شبیربرادرز)
شریعت مطہرہ میں مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی یا اس کی قیمت ہے ، اس سے کم مہر مقرر کرنا درست نہیں ہے ۔فتاویٰ عالمگیری میں ہے :"اقل المھر عشرۃ دراھم مضروبۃ او غیر مضروبۃ و غیر الدراھم یقوم مقامھا باعتبار القیمۃ۔ ملتقطا" مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہے خواہ یہ ڈھلے ہوئے ہوں یا بغیر ڈھلے ہوئے اور درہم کے علاوہ کوئی چیز ہو تو وہ قیمت کے اعتبار سے ان دراہم کے قائم مقام ہوگی ۔ملتقطا
(فتاویٰ عالمگیری ، جلد 1 ، صفحہ 302 ، مطبوعہ کوئٹہ )
سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں :"کم سے کم مہر دس ہی درہم ہے یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی ۔اور چاندی کے علاوہ اور کوئی چیز دے تو دوتولے ساڑھے سات ماشے چاندی کی قیمت معتبر ہوگی ۔"ملخصا
(ملخصا ۔ فتاویٰ رضویہ ، جلد12 ، صفحہ 162، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
نیز زیادتی کی جانب شریعت مطہرہ نے کوئی حد بندی نہیں فرمائی،جتنا زیادہ چاہیں باہمی رضامندی سے مقرر کرسکتے ہیں البتہ بہتر یہ ہے کہ حیثیت کے مطابق اتنا مہر مقرر کیا جائے کہ جسے باآسانی ادا کیا جاسکے ،لیکن یاد رہے کہ حیثیت سے زیادہ مقرر کرنا بھی ناجائز و گناہ نہیں اور جتنا زیادہ مہر مقرر کریں گے مقرر کرنے سے لازم ہوجائے گا۔درمختار میں ہے :"(و)یجب(الاکثران سمی)الاکثر"اور اگر (دس درہم سے )زیادہ مہر مقرر کیا تو یہ زیادہ واجب ہوگا ۔
(درمختار مع ردالمحتار ، جلد 4، صفحہ 223، مطبوعہ کوئٹہ )
اس کے تحت علامہ محقق ابن عابدین الشامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :"ای بالغا ما بلغ فالتقدیر بالعشرۃ لمنع النقصان"یعنی وہ زیادتی جس مقدار کو پہنچے (لازم ہوجائے گی )لہٰذا دس درہم کی مقدار کم کی ممانعت کیلئے ہے (کہ مہر اس سے کم نہ ہو )۔"
(ردالمحتار ، جلد 4، صفحہ 223، مطبوعہ کوئٹہ )
سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں :"مہر شرعی کی کوئی تعداد مقرر نہیں ، صرف کمی کی طرف حد معین ہے کہ دس درہم سے کم نہ ہو اور زیادتی کی کوئی حد نہیں ، جس قدر باندھا جائے گا لازم آئے گا ۔ملتقطا "
(فتاوٰی رضویہ ، جلد 12، صفحہ 165، مطبوعہ :رضا فاونڈیشن لاھور )
مہر میں بہتر یہ ہے کہ آسان ہو اس سے متعلق ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :اعظم النساء برکۃ ایسرھن صداقا" بڑی برکت والی وہ عورتیں ہیں کہ جن کے مہر آسان ہوں ۔
(المستدرک علی الصحیحین ، جلد 2، صفحہ 299، مطبوعہ کراچی )
سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں :"حیثیت سے زائد مہر نامناسب ہے، کوئی گناہ نہیں جس پر مواخذہ ہو ۔ "
( فتاوٰی رضویہ ، جلد 12، صفحہ 177، مطبوعہ رضا فاونڈیشن ، لاھور)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں :"کم سے کم مہر کی مقدار دس درہم شرعی ہے اس سے کم نہیں ہوسکتا ، اور زیادہ کے لئے شریعت نے کوئی حد نہیں رکھی جو باندھا جائے گا لازم ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ شوہر اپنی حیثیت ملحوظ رکھے کہ یہ اس کے ذمہ دین ہے ، یہ نہ سمجھے کہ کون دیتا ہے کون لیتا ہے ؟ اگر یہاں نہ دیا تو آخرت کا مطالبہ سر پر رہا ۔ "
(فتاوٰی امجدیہ ، جلد 2، صفحہ 144، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی )
فی زمانہ عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد اپنے اصل مذہب سے منحرف ہو کر دہریہ اور خدا کی منکر ہو چکی ہے، ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح حلال ہی نہیں، البتہ اگر کوئی کتابیہ عورت اپنے اصل مذہب پر قائم ہو، تب بھی فی زمانہ اس سے نکاح کرنا مکروہ تحریمی، نا جائز و گناہ ہے، کیونکہ اہل کتاب عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت اس وقت ہے جب وہ ذمیہ ہوں، یعنی وہ سلطنت اسلام میں مطیع الاسلام ہو کر رہیں، اور جزیہ دینا قبول کریں، جبکہ موجودہ زمانے کے اہل کتاب حربی ہیں، اور حربیہ اہل کتاب کے ساتھ نکاح مکروہ تحریمی ہے۔